خواتین کا دن اور پاکستان

somaira arshad
5 min readMar 11, 2021

سیاسی ، معاشی اور ثقافتی مساوات کے حصول کے لئے خواتین کی جدوجہد ایک صدیوں پرانا رجحان ہے۔ افلاطون نے قدیم یونان پر حکومت کرنے اور اس کے دفاع کے لئے خواتین کی صلاحیتوں کی وکالت کی۔ قدیم روم کی خواتین نے اوپیئن قانون کے خلاف اس لیے احتجاج کیا اس نےان کی سونے اور دیگر قیمتی سامان تک رسائی محدود کردی تھی۔

اسلام خود ایک انقلابی پیغام لے کر آیا تھا۔ اس نے بچیوں کے قتل عام کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور زندگی کے تمام شعبوں میں صنفی مساوات کا دعوی کیا۔ پیغمبر کی پہلی بیوی خدیجہ ایک مظبوط بزنس وومن تھیں اور انہوں نے چالیس سال کی عمر میں خود اپنی شادی کی تجویز پیش کی تھی۔ پیغمبر کی اہلیہ عائشہ مشہور عالم اور استاد تھیں۔ ایک مسلمان خاتون ہیرو ام عمارہ نے احد کی جنگ میں بہادری کے ساتھ نبی کی زندگی کی حفاظت کی تھی۔

اسلام لڑکیوں کووراثت میں کم سے کم نصف حصے کا حق دیتا ہے۔ اگر والدین چاہیں تو انہیں زیا دہ دے سکتے ہیں۔

مرد لاتعداد اوقات خواتین کو جنسی تسکین کے سامان کے طور پر بدلا کرتے تھے۔ اسلام نے نکاح کو قانونی معاہدہ کے طور پر مقرر کیا اور غیر معمولی حالات میں مردوں کو چار سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہی دی۔ اگرچہ ایسا کرنا پسندیدہ نہیں تھا۔ جدید مسلم ریاستوں میں سے پانچ؛ ترکی ، تاجکستان ، ازبکستان ، ترکمانستان ، اور تیونس میں ایک شخص کی پہلی بیوی کی موجودگی میںسات کے دوبارہ شادی کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ مراکش میں ، کسی کو بھی کسی بھی خاص حالات میں دوسری شادی کے لیےعدالت سے اجازت لینا ہوگی۔

اسلام نے خواتین کوجیون ساتھی کا انتخاب کرنے کا حق ، طلاق کا حق ، طلاق کی صورت میں بچوں کو تحویل میں رکھنے کا حق ، شادی کے بعد تعلیم جاری رکھنے کا حق ، کام کرنے کا حق ، سر ڈھکنے یا نہ ڈھکنے کا حق ، ایک واحد بیوی ہونے کا حق ، اور ایسے تمام حقوق جواس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ان سے نوازا ہے۔

ایک ایرانی امریکی اسکالر ، لیلہ بختیار کے مطابق ، اسلام کے تحت خواتین کے حقوق بیان کرنے کے لئے سب سے بہترین قرآنی آیت یہ ہے: “مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے۔”

نیو یارک میں 1908 میں امتیازی تنخواہوں، کام کے لمبے گھنٹوں، اور ووٹنگ کے حق کی عدم موجودگی کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے لگ بھگ 15000 خواتین سڑکوں پرجمع ہوگئی تھیں۔ 1918 میں ، برطانوی پارلیمنٹ نے پہلی بار خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔ ڈچ خواتین نے 1919 میں ووٹنگ کے حقوق اور 26 اگست 1920 کو امریکی خواتین نے ووٹنگ کا حق حاصل کیا۔

حقوق نسواں آہستہ آہستہ ایک ایسی سماجی تحریک میں تبدیل ہوگئی ہے جس نے نہ صرف ہمدردی ، تعاون ، انصاف ، اور مساوات کی نسوانی اقدار کوپروان چڑھایا ہے بلکہ معاشرے کے تمام اراکین کےلیے مساوی حقوق کی جد جہد کی ہے۔

مغربی معاشروں میں ، اس نے خواتین تک تعلیم تک رسائی اور کیریئر کے مواقع سے متعلق اہداف حاصل کیے ہیں۔ مردوں کے ساتھ متناسب تنخواہ؛ طلاق کی کارروائی شروع کرنے کا حق؛ حمل سے متعلق فیصلے کرنے کا حق (بشمول مانع حمل اور اسقاط حمل) طلاق کی صورت میں بچوں کی تحویل، اورشریک حیات کی جائیداد کے کچھ حصے کا دعوی کرنے کا حق جیسے حقوق حاصل کیے ہیں۔ ان ممالک میں خواتین اور بچوں کے خلاف جسمانی اور جنسی تشدد کو روکنے کے لئے سخت قوانین اور ان کا نفاذ عمل میں آیا ہے۔

حقوق نسواں کی چوتھی لہر کا آغاز 2012 میں ہوا تھا۔ اس کی توجہ پوری دنیا میں جنسی ہراسانی ، جسمانی ساخت پر شرمندہ کرنے اور عصمت دری کے کلچر کو روکنے پر ہے۔ یہ دوسرے حقوق کے ساتھ عورت کی رضامندی کے حق پر زور دیتی ہے۔

پاکستان جیسے ممالک میں زہریلی مردانگی نے نسائی حقوق کی خلاف ورزی میں گہرا کردارادا کیا ہے۔ ناقص خود اعتمادی اور مشکوک کردار کے لوگ ، عام طور پر مذہب کی پدر شاہی تشریحات کو عالمی اقدار کے طور پر نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ایک مثال پاکستان کے ایک متنازعہ اسکرپٹ رائٹر ، خلیل الرحمن قمر کی ہے۔

احترام کا حق ہر انسان کوحاصل ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ، خواتین کو عزت اور وقار کا دعوی کرنے کے لئے کسی مرد رکن کے ساتھ تعلقات میں رہنا پڑتا ہے۔ معیار یہ ہے کہ وہ ماں ، بہن ، بیٹی ، یا بیوی ہے۔ اور اگر وہ کسی مرد رشتہ دار کے ساتھ تعلق رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے ، یا فطری طور پر ان رشتوں کو کھو چکی ہے تو وہ بدنامی ، انحطاط اور ذلت کی مستحق ہے۔

اپنی پسند کا انتخاب کرنے کا حق انہیں ان باتوں سے انکار کرنے کا بھی حق دیتا ہے جو وہ پسند نہیں کرتیں۔ یہی رضامندی کا صحیع تصور ہے۔ خواتین کا شادی اور اولاد پیدا کرنے کے لیے رضامند ہونا ناگزیر ہے۔

لوگ لڑکیوں کو ان کے مقاصد یا حقیقی ضروریات کو حاصل کرنے کی بات نہیں کرتے ہیں۔ قومی اداروں کا ماحول ان کے لئے کام کرنے یا آزادانہ طور پر کہیں آنے جانے کے لئے سازگار نہیں ہے۔ حتی کہ اسپتال ، عدالتیں اور تھانے خواتین یا ٹرانسجینڈر شکایت دہندگان کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی درخواست سننے کی بجائے بہت سارے معاملات میں ان کو ذلیل ، اور ہراساں کیا جاتا ہے۔

اس سال کے چارٹر آف ویمن مارچ پاکستان کے منتظمین نے اور مطالبوں کے ساتھ، خواتین اور ٹرانسجینڈر برادری کی عمومی ، تولیدی ، ذہنی اور بحالی صحت کے لئے صحت کے بجٹ میں اضافے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ چارٹر نے مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومتیں 8 مارچ سے پہلے عوامی سطح پر بجٹ کا اعلان کریں۔

تشدد اور صدمے کے بغیر زندگی بسر کرنے کا حق ہر انسان کے لئے ضروری ہے۔ ہمارے مرد ارکان کی اکثریت متشدد اور جارحانہ سلوک کا مظاھرہ کرتی ہے۔ گھریلو زیادتیوں ، ملازمت کی جگہ پر دھونس ، جنسی ہراسانی ، اور اجتماعی عصمت دری اور غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔

مردوں کے اس پُرتشدد جنسی سلوک کی ایک اور وجہ یہ مشہور عقیدہ ہے کہ عورتیں اور ٹرانسجینڈر جنسی ہستیاں ہیں ، جن کا مقصد مرد کی جنسی خواہشات کو راحت بخشنا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ، لڑکوں اور لڑکیوں کو کم عمری میں ہی الگ کردیا جاتا ہے۔ بچے وہ تعلیم اور تربیت حاصل نہیں کرتے جس کی انہیں دونوں جنسوں کے مابین مناسب میل جول کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی جسمانی اور جذباتی حدود کو پہچا ننا اور ان کا احترام کرنا اور رضامندی کی کمی یا عدم موجودگی کو سمجھنا ہمارے نوجوانوں کے لئے انوکھے تصورات ہیں۔

دماغی ، جذباتی ، اور جنسی صحت کی تعلیم کی کمی اور صنفوں کو الگ کرنا پاکستان میں خواتین ، ٹرانسجینڈر اور بچوں کے خلاف جسمانی اور جنسی تشدد کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

مردوں کو مذہب یا ثقافت کے نام پر خواتین کو بدنام اور شرمندہ کرنا ، جنسی اور جسمانی تشدد کرنا ، شادیوں اور بچے پیدا کرنے کے لیے زبردستی کرنا ، عصمت دری کرنا ، اور غیرت کے نام پر قتل کرنا بند کرنا ہو گا۔ انتہائی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اکثر اوقات اپنے ہی خاندان کے مرد دانستہ یا نا دانستہ طور پر خواتین کو خدا کے عطا کردہ حقوق سے محروم رکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ، جب خواتین احتجاج کے لیے باہر آئیں تو انہیں یہ کہہ کرشرمندہ کیا جاتا ہے، “ان کو دیکھو! یہ خواتین اپنےہی باپوں اور بھائیوں کے خلاف مارچ کر رہی ہیں۔

خدا کا واسطہ! اس منافقت کو چیلنج کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں۔

--

--