لا تعلقی (بے حسی) کی چا ر اقسا م
ہمارے دور کی علتوں میں ایک بڑی علت بے حسی کی ہے۔
انیسوویں صدی میں ، کارل مارکس نے چار اقسام کی لا تعلقی کی بات کی تھی جوکہُ بد قسمتی سے آج کے حا لا ت پر بھی صا د ق ہے۔
انسان کی پہلی لا تعلقی بلکہ بے حسی ھمارے فطری ماحول کے لیے ہے۔ ماحول کی تباہی سے ہم اتنےلاتعلق ہیں کہ کرونا جیسی وباؤں کے باوجود ھم اپنی
ما حو لیا تی آلودگی کونہ صرف مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں بلکہ اس میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم فطرت کی گہرائی اور خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے اور فائدہ اٹھا نے کے بجاے اسے تباہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر ہم ہمارے اردگرد کے لوگوں سے جو ہماری زندگیوں میں کسی نہ کسی طرح سے شا مل ہیں با معنی رابطہ منقطع کر چکے ہیں. آج کے دور میں ھمارے سارے رشتے مصنوئی ہیں۔ لوگوں سے ہمارا معنویت کا رشتہ ختم ھو چکا ہے۔ بظاہر ہم دوسرے لوگوں سے جتنا قریب ہیں، در حقیقت اتنا ہی دور ہیں۔ ہم ایک دوسرے پر اعتبار اور ایک دوسرے کا احساس دونوں ہی کھو چکے ہیں۔ بڑی بڑی سوشل گید رنگز دکھاوے یا فوری اور وقتی خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ تو بن سکتی ہیں لیکن کسی با معنی اور پر مسرت رشتے یا مستقلل خوشی کی وجہ نہی بن سکتیں۔
ایسے سرمایہ دارانہ معاشرے میں ، صارفین ہی اصل حکمرانی کرتے ہیں۔ وہ جو چاہیں خرید سکتے ہیں اورجتنا چاہیں خرید سکتے ہیں۔
مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قربت ، اعتماد ، اور حقیقی دوستی کا احساس خرید وفروخت کا سامان نہیں ہے۔ یہ وہ اقدار ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے پیا روں کو اپنا قیمتی وقت ، موثرتوانائی اور یعنی بھرپورتوجہ بنا کسی بد لے کی توقع رکھے بغیر دینا پڑے گی۔آجکل ہما رے تعلقات ھمارے وقتی جذبوں کی تسکین کا زریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ ہمیں حقیقی مسرت دینے سے قاصر ہیں۔
اسی طرح ہمارا کاروبار یا پیشہ بھی ہمارے لیے مادی فائدوں تک محدود ہو گیا ہے۔ ہم اپنے کام سے یوں لا تعلق ہیں کہ بظاہر بے حد مصروفیت کے باوجود بہت سے لوگ اب کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو کام ان کےلیے حقیقی طور پر با مقصد اور پر مسرت ہو۔ ہمار کام ہما رے لیے صرف زریعہ معاش بن کر رہ گیا ہے۔
Humans are essentially creative beings.
خدا نے ہمیں اپنے سانچے میں تخلیق کیا ہے۔ ہمیں اس دنیا میں ذہن سازی کرنے اوراپنی تخلیقی قوتوں کو استعمال کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
جب ہم ایسا کام کرتے ہیں جو تخلیقی نہیں ہوتا یا ہماری تخلیقی صلاحیتوں سے مطا بقت نہی رکھتا مثلا قدرتی طور پر آپ ایک بہتر پینٹر ہیں لیکن کسی بھی وجہ سے آپ قانون کی تعلیم حاصل کر کے اسے اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں تو ایسی صورت میں آپ اپنی زات کو تقویت دینے کی بجا ے اپنی زات کی نفی کرتے ہیں ۔ اسی لیے ہم بہت سی جذباتی، ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جب ہم وہ کام کرتے ہیں جس کے لیے ہمیں بنا یا نہیں گیا ،اور جو افسردگی ، اضطراب ،اور بے مقصد یت کا احساس دلاتا ہے تو اس کے بعد ہم اپنی بے معنی ذندگی میں معنی بھرنے کے لیے ہراس طرح کی سرگرمی میں مصروف رہتے ہیں جس سے ہمیں ہماری ذندگی کے با معنی ہونے کی جھوٹی تسلی ملتی رہے۔
انگریزی میں اس عمل کو
compensating کہتے ہیں۔
ہم کیسے نظر آتے ہیں ، لوگ ہمارے بارے
میں کیا محسوس کرتے ہیں ، ہمارے پاس کتنی دولت ہے ، ہم کتنی اور کیسی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ذاتی خلا کو پر کرنے کے لیے
ہماری معیشت ایسے بہت سے پروڈکٹس بیچتی ہے جوہمارے لیے ہماری زندگی کوبا معنی بنانے کے لیے وقتی متبادل مہیا کرتے ہیں۔
اور اب سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم خود سے آ تعلق بلکہ اجنبی ہو چکے ہیں۔ آپ نے کتنی بار اپنے دل کی آواز یعنی اپنی چھٹی حس کو محسوس کیا لیکن اس پر توجہ نہیں دی ، اور اس کے بعد آپ کو افسوس ہوا۔ شاید بسا اوقات!
دوسری طرف آپ نے کتنی بار اپنی intuition یا sixth sense پر توجہ دی اور بعد میں خدا کا شکرعطا کیا؟ شاید بہت ہی کم ایسا ھوا ہو گا! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک لمبے عرصے سے اپنے آپ سے رابطہ کھو چکے ہیں کیونکہ بچے اپنی gut feelings یا چھٹی حس کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اس طاقت کے بغیر دنیا میں نہی آتے۔
ہمارے اس کلچر میں ، کچھ بہت ہی بااثر ہے جو ہمیں اپنے آپ سے دور کر دیتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ہمیں اس طرح قبول نہیں کرتا جیسا کہ ہم ہیں۔ یہاں تک کہ ہما رے والدین بھی ہم کو من و عن قبول کرنے اور عزت دینے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔ میں نے بھی غیر شعوری طور پر اپنے بچوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔ انُکے لیے عزت اور محبت کو اس بات سے مشروط کیا کہ وہ ہر وہ کام کریں جو culturally اور socially پسندیدہ ہے چاہے انہیں اس کے لیے اپنی ذات کی نفی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
ایسی دنیا میں رہتے ہوے ھم بہت آسا نی کے ساتھ خود سے تعلق توڑ لیتے ہیں۔ اپنی ذات میں شرمندگی محسوس کرتے اور اپنی ذاتی خصوصیات کو چھپانے کی یوں کو شش کرتے ہیں کہ خود ہی اپنے آپ کو بھول کر خود کے لیے اجنبی ہوجاتے ہیں۔
Without knowing that our gut feelings are not luxuries for us and that they fulfill an important purpose, we discard them.
یہ قوتیں ہمیں بلا وجہ عطا نہیں کی گئیں۔ یہ ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمارے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔۔، کیا محفوظ ہے اور کیا غیر محفوظ۔۔
اور یہ کوئی جادوئی قوت نہیں ہے بلکہ یہ انسانی دماغ کی ایک ایسی فیکلٹی ہے جس میں انسان کا لا شعوراس کے پچھلے تجربات اور مجمو ی علوم کے ذریعہ تیزی سے حرکت کرتے ہوئے اس کے لیے hunches تیار کرتا ہے۔ یہ پروسیسنگ اتنی quick اور vast ہوتی ہے کہ انسان کا شعوری ذہن اس پروسس کا ادراک نہیں کرسکتا۔
اپنی اس فیکلٹی کو ختم کرنے کا مطلب ہے کہ ہم خود اپنے آپ سے بے خبر ہو جاہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ انسا ن اگر چاہے تو ایک با مقصد اور با معنی ذندگی گزارنے کے لیے دوبارہ خود سے مربوط ہوسکتا ہے۔
ابھی کے لئے ، براہ کرم یاد رکھیں کہ ہمدردی، محبت، اور مہربانی جیسے جذبات انسانی فطرت میں شامل ہیں۔ پھر وہ ھمدردی اور محبت فطرتی ماحول اور نظاروں کے لیے ہو، دوسرے انسانوں یا مخلوق کے لیے ہو یا پھر ہماری ذات کے لیے۔
ہمارے کلچر نے ہمیں مسا بقتی اور جارحا نہ رویوں میں الجھا دیا ہے۔ ہم دوسروں کو نہ صرف خود سے الگ بلکہ اپنے سے کمتر یا بہتر جان کر مسلسل ایک ریس کی سی کیفیت میں رہتے ہیں۔ انسان فطری طور پر ہمدردی ، ربط ، محبت ، اور مہربانی کا مظاہرہ کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ صحیح سمت میں آگے بڑھنے کے لئے ، ہمیں اپنی اصل فطرت کی طرف لوٹنا ہے۔
حوالہ: https://youtu.be/TIjvXtZRerY